دین اسلام کی جامعیت عملی زندگی کی رہنمای ،دنیا وآخرت کی کامیابی کے لیے واضح اور دو ٹوک پیغام حیات ہے انسانیت کا درست خطوط پر قایم ہونا دنیا و آخرت کی کامیابی کے نظریے سے زندگی بسر کرنا اﷲ کو مطلوب ہے۔انسانیت اﷲ کو محبوب ہے اور انسانی ترقی کے لیے اﷲ نے ا نبیاہ کا سلسلہ قایہم فرمایا حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیاہ انسانیت کی رہنمای کے لیے دنیا میں تشریف لاے۔یس قاینات کا نظام چلانے والی طاقت و قوت اﷲ واحد ہے۔انبیاہ خلیفتہ اﷲ فی الآرض ہے اور اس زمین پر اﷲ کے خلیفہ اور نایب بھی۔اس کرہارض کی بنیادی اتھارٹی اﷲ کے بعد انبیاہ کے زوات قدسیہ ہے اور ان انبیاہ میں سے امام الآنبیاہ حضرت محمد ﷺ ہے پورے کرہارض کی تمام انسانوں کی طرف مبعوش ہوے باقی انبیاہ تو اپنی اپنی اقوام کی طرف مبعوث ہوے تھے حضور ﷺ نے فرمایا :کہ میری بعثت تمام انسانیت کی طرف ہے یعنی انسانو میں اعلیٰ نمونے کا میعار ہی فرد کامل فرد جامع حضور اقدس ﷺ کی ذات گرامی ہے ٓٓٓٓآپﷺ اس دنیا میں دین حق کا نظام قایم کرنے کے لیے تشریف لاے ۔ اور وہ صرف کسی ایک قوم نسل اور علاقے تک محدود نہیں بلکہ کل انسانیت کی فلاح و بہبود تمام علاقوں کے لیے ایک بین الآ قوامی نظام ہے۔یقینا آپﷺ اور آپﷺ کی تیار کردہ جماعت نے ایسا بین الآقوامی نطام چودہ سو سال پہلے قایم کر کے دکھایا اور آپﷺ کے بعد آپﷺ کے خلفاء انبیاہ کی بین الآٓقوامی آتھارٹی کا نظام قایم کر نے والے ہیں اور نبیﷺ کے غلبے کا یہ نظام تقریبا سو بارہ سو سال تک پوری دنیا میں غالب رہاگویا ہزار ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ نبیﷺ اور ان کی تربیت یافتہ جماعت کے تاریخی تسلسل کے نتیجے میں کل انسانیت کی فلاح وبہبود کا عالمگیر نظام قایم ہوا ۔مسلمانوں پر یہ ذمہداری عاید ہوتی ہے کہ وہ حضورﷺ کی اس وراثت کو لے کر دنیا میں دین حق کا عالمگیر نظام قایم کرنے کے لیے اپنی تواناییاں خرچ کرے مسلمان وہی ہے جو اﷲ پر پختہ یقین رکھے اور یقین کا معنی کاینات کا نظام چلانے والی ایک واحد آتھارٹی کو تسلیم کرنا ہے۔
مسلمان ایک عالمگیر آتھارٹی کا حصہ ہوتا ہے وہ ایک ایسی جماعت کا حصہ ہے جسے دنیا میں وہ سسٹم قایم کرنا ہے جو محمد ﷺ لے کر آے اور یہ سسٹم محض رسمی نہیں ان پر یہ لازمی قرار دیا ہے کہ: محبت لازمی ہے اﷲ اور رسولﷺ محبت ہے اور یہ محبت کا جذبہ دراصل ڈسپلن قایم کرنے کے لیے جان مال قربان کرنے کی اہلیت و صلاحیت پیداکرے محبت یہ ہے جو ایک نتیجہ پیدا کرتی ہے مھبت نہ ہو تو فرمانبرداری نہیں ہوتی دل کی چاہت سے جب کام کیا جاتا ہے تو وہ حقیقی فرمانبرداری ہے اور یہ درست نتیجہ قایم کرتی ہے یہے دلی لگن اور محبت و عشق حضورﷺ کی اتھارٹی کے ساتھ قایم کرنا ہوتا ہے اسکی محبت کے بغیر دنیا میں کویے نتیجہ پیدا نہیں ہوتا یہے دراصل انسان کے اندر وہ تحریک پیداکرتی ہے جسکی اساس پر انسان فرمانبردار بن جاتا ہے اور ان اھکامات کا نظام قایم کرتا ہے جو محبوب اور معشوق کی ھدایات کی روشنی میں انسانیت کے سامنے آتا ہے گویا کہ عشق ینسانی دل ودماغ پر وجود کے اندر وہ آگ بھر دیتا ہے ،وہ تحریک پیدا کرتا ہے،وہ جذبہ بیدار کرتا ہے جسکے نتیجے میں وہ دین حق کا نظام قایم کرنے کے لیے اسے جان کی قربانی دینی پڑے محنت و مشقت سے کمایا ہوا مال خرچ کرنی پڑ حتیٰ کہ خاندان بھی قربان کرنا پڑے تو قربان کردیتا ہے۔محبت اور عشق کے بغیر سسٹم قایم نہیں ہوتا اب یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس عشق و محبت کا تعلق انسانی روح کے ساتھ ہے اور انسانی روح کے تین پردے ہیں پہلی کا تعلق انسانی نفس سے ہے دوسرا دایرہ قلب انسانی ہے اور تیسرا عقل ۔اس طرھ محبت کے بھی تین مراکز ہیں محبت نفسانی ،محبت قلبی اور محبت عقلی ۔
اس طرح محبت کی اقسام بھی درجہ ذیل بنتی ہیں
۱۔ نفسانی محبت : اگر نفس کے تقاضوں سے محبت ہو تو یہ نفسانی محبت ہے
۲۔ قلبی محبت: قلب کی محبت جرائت اور دلیری پیدا کرتی ہے ہمت بیدار کرتی ہے
۳۔عقلی محبت : اس سے مراد عقل و شعور کی بنیاد پر چیزوں کا درست تجزیہ کرنا ہے
گویا بیوی کی محبت دنیاوی معشوقوں کی محبت ،محض روایتی اور رسمی ماں باپ کی محبت نفسانی ہے نفس کے تقاضے سے ھے اور ایک محبت کا مرکز قلب ھے قلب کی محبت جرائت اور دلیری پیدا کرتی ہے نفس کی محبت دنیا کی آسایشیاں کا مطالبہ کرتی ہے اگر نفسانی محبت ہو تو اسکے مقاصد و اہداف نفس کی مطلوبات روٹی کپڑا مال دولت دنیا کی محض عیاشی ہیں جب نفسانی عشق ہوتا ہے تو نفسانی راحتوں کی تلاش کے لیے انسان آگے بڑھتاہے لیکن جب عشق کا مرکز دل ہوتا ہے تو وہ بہادری اور جرائت پیدا کر تا ہے کہ جس کے ساتھ عشق ہو اسکے لیے جان لڑادی اور ہمت طاقت اوعر قوت کا مظاہرہ کیاجسکے ساتھ عشق ہو اسکے کام کو پورا کرنے کا عزم کیا اس عشق نے دل کے اندر تحریک بیدار کی اور جب یہپ ارادہ ،عزم،جراء ت اور ہمت پیدا ہو جاے تو دنیا کی کوی طاقت راستہ نہیں روک سکتی اسکے راستے میں پہاڑ آے ،مصیبت آے یا سامراجی اور طاغوتی قوت آے اسکا ارادہ متزلزل نہیں ہو سکتا کیونکہ عشق کی آگ لگی ہوی ہے ایسا ہی عشق کا تیسرا دایرہ عقلی محبت ہے یعنی عقل اور شعور کی بنیاد پر چیزوں کا درست تجزیہ کرنا ہے عقل کا کام حالات و واقعات کے گردوپیش کے حقایق تدبر و تفکر ،تجزیہ کرنے کی صحیح مطلوبہ نتایج ھاصل کرنے کی اھلیت اور صلاحیت پیدا کرنا ہے نفسانی عشق ہو جاے اور قلبی عشق ہو جاے جراء ت و ہمت پیدا ہو جاے اور انسان ہر چیز کے ساتھ لڑ پڑے تو عقل راستے میں رکاوٹ بنتی ھے محبت عقلی عقل کی بنیاد پر معشوق کے احکامات کا عملے نظام قایم کرنے کا طریقہ سمجھاتا ہے مکر وفریب سے بچتی ،دھوکہ دہی کے ماحول سے دور بھاگتی حالات و واقعات کے حقایق کا درست تجزیہ کرتی ہے وہ کسی جھانسے میں نہیں آتی قلبی جرائت بلا سوچے سمجھے مار دھاڑ کا عمل نہیں کرتی ۔اگر عقلی محبت ہو تو نفس اور قلب کی محبت عقل پر غالب آکر انسانیت کی تباہے اور بربادی نہیں کرتی یعنی سب سے اونچے درجے کی محبت عقلی محبت ہوتی ہے نفسانی محبت ناقص اور ادھوری ہے نفس کی محبت ہو لیکن قلب کی جرات نہ ھو تو وہ عشق ڈھیلا ہوتا ہے قلب کی جرائت نہیں ہے اور نفس کو عشق راغب ہو تو نہ تو اظہار محبت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی محبت کے لوازمات پر عمل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے وہ عشق ناکام ہے جسکے پیچھے قلبی جراء ت نہیں اور اگر محبت جرائت والی ہو اور حالات و واقعات کا درست تجزیہ نیہں کیا کسی پھندے میں پھنس گیے کسی کے آلہ کار بن گیے اور کسی کے مقاصد کے لیے جھوٹی محبت میں گرفتار ہو کر استعمال ہو گیے تو مطلوبہ مثبت نتایج کی بجاے منفی نتایج پیدا کیے تو یہ عقلی محبت کا فقدان ہے کونکہ محبت عقلی ہی دراصل درست نتیجہ پیدا کرتی ہے اسطرح خدا اور رسولﷺ سے محبت کا تقاضا جو قرآن میں ہے وہ انسان پوری دنیا وما فیہا حتیٰ کہ خاندان اور مال و آولاد سے بھی زیادہ محبت کرنی ہے جب حضور ﷺ سے محبت عقل و شعور کی بنیاد پر ہو تو وہ تقاضا کرتی ہے کہ نبیﷺ نے کل انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے جو نظام قایم کیا ھے اسکے لیے جدوجہد کیا جاے نفس قلب اور عقل کا استعمال کیا جاے اور اسکا قیام تب ہے ممکن ہو گا کہ کل انسانیت میں سے مخصوص ظالم انسانیت دشمن کفر کا نظام چلانے والی طاقت کو ہدف بنا کر اسکے خاتمے کے لیے جدوجہد کیا جاے کونکہ جب تک نظام غلط ہو تو اچھا کام بھی غلط نتیجہ پیدا کرتا ہے -
آج کا سب سے برا المیہ یہ ہے کہ ہم جو عشق و محبت کے نعرے لگاتے ہیں یہ نفس کے تقاضے سے ہے اسی طرح آج کا عشق رسول کا دعوی بھی ہے عشق و محبت کے اظہار کے لیے اپنی ویڈیو شییر کرنا وغعرہ تمام کا تعلق نفسانی محبت سے ہے ۔اسکا تعلق قلب سے نہیں اور اگر کسی نے قلب کا مظاہرہ کیا بھی تو وہ عقل سے فارغ ہے محض ایسی اندھی جراء ت کہ جسکے نتیجے میں عقل کا استعمال بند ہو جاے وہ بھی منفی نتایج پیدا کرتی ہے عقل وشور کا یہ تقاضا ہے کہ حضور ﷺ سے محبت ہو تو حضورﷺ کے نظام کے برعکس جو سامراجی و طاغوتی نظام معیشت ،سیاست ،معاشرت ،تہذیب و کلچر ہے یسکو ختم کیا جاے اسکا عملی نتیجہ سسٹم کی شکل میں ہونا چاہیے محض دودھ پینے والا مجنوں نہیں بلکہ خون دینے والا مجنوں بننا چاہیے مگر عقل ،فہم و بصارت کے ساتھ ۔
جسطرح مشرکین مکہ حضور ﷺ پر کیا کچھ نہیں اچھالتے مگر صحابہ کرام نے عقل کا مظاہرہ کیا شعور کی بنیاد پر صبر سے کام لیا کھبی عقل سے ماورا کوی کام نہیں کیا اور اس محبت کا نتیجہ دیکھیے کہ ان سب ظالم طبقے کا خاتمہ وہی مسلمانوں کی جماعت کرتی ہے لیکن کب جب عقل کی بنیاد پر ایک سسٹم کا قیام کیا جاتا ہے اسطرح عدم تشدد کے اصول کو بروے کار لا کر مقصد اور ہدف سامنے رکھتے ہوے عقل اور شعور کی بنیاد پر مدینہ منورہ پہنچتے ہے اور اپنا نظام بنا کر کھلی جنگ لڑتے ہیں اس میں اگر عقل کا استعمال نہ ہوتا اور مشرکین کق قتک کردیا جاتا تو لوگ کہتے کہ یہ ذاتی لڑای ہے ۔اس آج بھی عقل وشعور کی بنیاد پر گرد و پیش کے حقایق کا جایزہ لے کر اپنے محبت و عشق کے معاملات کو عقلی بنیادوں پر پیش کرنا ہے اور اسی طرح کامل عشق کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے-
اسلام میں عشق کا تصور
Reviewed by Unknown
on
January 21, 2018
Rating:
nice
ReplyDelete