اللہ تعالیٰ تبارک وتعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
اور آپ کا رب حکم دے چکا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو ”اف“ تک نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکو بلکہ ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کرو ۔ اور ان کے سامنے رحم دلی سے انکساری کے ہاتھ جھکائے رکھو اور (اللہ تعالیٰ کے حضور )عرض کرو: اے میرے رب ! ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھے (بڑی رحمت و محبت سے) پالا تھا ۔ (قرآن : 17 : 23۔24)
جس طرح اللہ تعالیٰ عبادت کا مستحق ہے اسی طرح والدین بھی حسن سلوک کے مستحق ہیں کیونکہ انسان کا حقیقی خالق اور رازق تو اللہ تعالیٰ ہے مگر اس کے ظاہری اسباب والدین ہیں۔ اس ضمن میں والدین کی خدمات لا جواب ہیں کیونکہ انسان تمام جانوروں کے بچوں سے زیادہ کمزور اور نا سمجھ پیدا ہوتا ہے، دیگر جانوروں کے بچے چند ہفتوں اور چند مہینوں میں اپنے آپ کو سنبھال لیتے ہیں مگر انسان ایک طویل عرصہ تک والدین کا محتاج رہتا ہے۔ اور والدین یہ ساری خدمات بغیر کسی لالچ اور معاوضہ کے سر انجام دیتے ہیں۔ اس لئے ان کا حق بنتا ہے کہ اولا د بھی ان کی خدمت میں ہمیشہ سرگرم رہے، بالخصوص جب وہ بوڑھے ہو جائیں تو کوئی ایسا لفظ
بھی زبان پر نہ لائے جو والدین کی دلآزاری کا سبب بنے۔
مام محمد غزالی نے والدےن کے آداب بتاتے ہوئے فرمایا : بیٹے کو چاہیے کہ وہ:
ایک شخص نے حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں آکر دریافت کیا:’’یا رسول اﷲ! سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟‘‘
اﷲ کے حبیب ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’تیری ماں۔‘‘
اس کے بعد پوچھا: پھر کون تو نبی رحمتؐ نے ارشاد فرمایا:’’تیری ماں۔‘‘ اس پھر پوچھا تو ارشاد فرمایا:’’تیری ماں۔‘‘ تین دفعہ آپؐ نے یہی جواب دیا اور چوتھی دفعہ پوچھنے پر ارشاد فرمایا:’’تیرا باپ!‘‘ (بخاری)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور اگر تمہارے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے تعظیم کی بات کہو اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھائو اور اور عرض کرو کہ اے میرے رب ! تو ان دونوں پر رحم کر، جیسا کہ ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا۔‘‘
یہ صرف اسلام ہے جس نے بوڑھے والدین کی خدمت گزاری کا اتنا اہتمام فرمایا ہے۔ ارشاد رسول کریمﷺ ہے:’’بڑا بدبخت ہے وہ شخص جو اپنے والدین کا بڑھاپا پائے، پھر انہیں خوش کرکے ان کی دعائوں سے اپنے آپ کو جنت کا مستحق نہ بنالے۔‘‘ اسلام اولاد کو حکم دیتا ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نرمی و تواضع، خاکساری و انکساری سے پیش آئے، ان کے ساتھ احترام و محبت کا بر تائو کرے۔ اگر انہی کسی بات پر غصہ آجائے تو اسے برداشت کی عادت ڈالیں۔
والدین کے حق میں دعا ئے رحمت کرتے رہنے سے خود اپنے دل میں بھی ان کے لیے محبت و کشش کے جذبات بیدار ہو جائیں گے۔
قرآن کریم کی طرح احادیث نبوی ﷺ میں بھی حقوق والدین کی ادائیگی پر زور دیا گیا ہے۔ نبی پاکﷺ کا ارشاد ہے:’’پروردگار کی خوش نودی ماں باپ کی خوش نودی میں ہے اور پروردگار کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔‘‘ (ترمذی)
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جب اولاد اپنے والدین کی طرف نظرِ رحمت کرے تو اﷲ تعالیٰ اس کے لیے ہر نظر کے بدلے حج مبرور کا ثواب لکھ دیتا ہے۔‘‘
عرض کیا گیا:’’چاہے دن میں سو مرتبہ نظر کرے؟‘‘
رسول پاکؐ نے ارشاد فرمایا:’’ہاں۔‘‘ (بیہقی )
والدین کے بارے میں اﷲ کے رسولﷺ نے اولاد کو مخاطب کر کے فرمایا:’’وہ دونوں تیری جنت و دوزخ ہیں۔‘‘ یعنی ان کو راضی رکھنے سے جنت ملے گی اور ناراض رکھنے سے دوزخ کے مستحق ہو گے ۔ قرآن کریم و احادیث مبارکہ نے والدین کی خدمت گزاری و اطاعت شعاری کو جو اہمیت دی ہے، اس کی روشنی میں ہر مسلمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کا عمر کے ہر حصے میں عموماً اور ان کی ضعیفی میں خصوصاً مطیع و فرماں بردار رہے۔ ان کی خدمت کو موجب نجات جانے۔ ان کے جملہ حقوق سے انحراف نہ کرے۔ کبھی ان کی ضرورتوں سے بے نیازی نہ برتے، بلکہ خود اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین کو بھی ان کے اکرام و احترام کا پابند بنائے۔ خصوصاً بڑھاپے میں اسی طرح ان کی خدمت بجالائے اور دوسروں کو بتائے جس طرح اس کے بچپن میں وہ اس کی پرورش اور ناز برداری کرتے رہے۔
معلوم ہوا کہ ماں باپ اولاد کے لیے شفقت اور رحم و محبت کا سایہ ہیں۔
قرآن عظیم میں اﷲ جل جلا لہ نے اپنے حق کے ساتھ ان کا حق بیان فرمایا۔ ارشاد ہوا:’’حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔‘‘
اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی خدمت کرنے اور ان کی نافرمانی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
والدین کے حقوق : اولاد کے فرائض
Reviewed by Unknown
on
February 04, 2018
Rating:
No comments: