مسجد نبوی ﷺ کی چھت کس چیز سے بنائی گئی تھی؟ پہلی بار جب آپ ﷺ منبر پر بیٹھےتو کھجور کا تنا کیوں رونے لگا؟



مسجد نبوی کی چھت کھجور کے تنوں پر بنائی گئی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک تنے کے سہارے کھڑے ہوجاتے تھے ، کبھی کبھی خطبہ لمبا ہوجاتاتھا،اس لیے ایک انصاری عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سہولت کے لیے
کہاکہ (اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر بنوادیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری عورت کی بات مان لی تو اس عورت نے آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جھا ؤ کے درخت سے تین سیڑھیوں والاایک منبر تیارکروادیا، جمعہ کادن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنے کے بجائے منبر کی طرف تشریف لے گئے . وہ تنا غم فراق سے رونے لگا.
صحیح بخاری میں جابر بن عبد اللہرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے وقت ایک درخت یا کھجور کے تنے کے پاس کھڑے ہوتے تھے. ایک انصاری نے پیش کش کی : اے اللہ کے رسول !کیاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے
ایک منبر نہ بنادیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جیسے تمہاری مرضیانصاری عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر بنوا دیا. جمعہ کا دن آیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرماہوئے تو وہ تنا بچے کی طرح چیخ چیخ کررونے لگا. نبی صلی اللہ علیہ
وسلم منبر سے اترے اوراس تنے کو آغوش میں لے لیاتووہ اس بچے کی طرح ہچکیاں لینے لگاجسے بہلا کر چپ کرایاجارہاہو . تنے کارونا ، فراق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورذکر اللہ سے محرومی کی بناپر تھاجسے وہ پہلے قریب سے سنا کرتاتھا.(بخاری :2095)

میرا پیمبر عظیم تر ہے

غالب جیسا عظیم اور قادرالکلام شاعر جس کی نظروں میں اعجاز مسیحا محض اک بات ہے اور دنیا کی وسعتوں اور رنگینیوں کووہ شب و روز کا تماشہ قرار دے کر کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ اُسے اپنے اہل زباں ہونے پر نہ صرف فخر ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو ریختہ کا استاد بھی قرار دیتا ہے۔ لیکن اَسی غالب کے سامنے جب مدح شاہ دوعالم کا موقع آیا تو اسی غالب کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا۔ جس کے سامنے الفاظ باندی کی طرح کھینچے چلے آتے تھے اور وہ انہیں جیسے چاہے استعمال کرتا تھا اُسے مجبور ہوکر کہنا پڑا
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذشتیم کاں ذاتِ پاک مرتبہ داں محمدؐ است
ایک غالب ہی کیا دنیا کی عظیم ہستیاں بھی بارگاہ رسالت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہیں۔ فیض احمد فیض نے جنہیں یوں خراج عقیدت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی
اے تو کہ بست ہر دِل محزوں سرائے تو اوردہ ام سرائے دِگر از برائے تو
خواجہ بہ تخت بندۂ تشویش مُلک و مال بر خاک رشکِ خسروِ دوراں گدائے تو
جس ذاتِ گرامی کی تعریف و توصیف خود رب کائنات انسانیت کے نام آخری پیغام میں خود کررہا ہو کہ بے شک آپ اخلاق کی بلندیوں پر فائیز ہیں اور ــ’’ورفنا لک ذکرک ‘‘ اور یہاں تک کہ’’ ولسوف یرضی‘‘ ۔ مقام مصطفیﷺ کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ حرمت اور تعظیم رسولؐ بھی صحابہ اکرام ؓ جیسی عظیم ہستیوں کوبتا دی کہ حضور ؐ کی مجلس مں بیٹھ کر آپس میں سرگوشیاں نہ کرو اور نہ انہیں ایسے مخاطب کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے کو کرتے ہو اور مزید یہ کہ آپؐ کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرو وگرنہ تمھارے تمام اعمال ضائع ہوجائیں اور تمھیں خبر تک بھی نہ ہوگی۔ اسی لیے حضورؐ سے بے پناہ
محبت کرنے والے دم بخود ہو کر کہہ اٹھتے ہیں کہ
ادب گاہست زیر آسماں از عرش نازک تر نفس گم کرہ می آئید جنید و بایزید ایں جا
عارف کھڑی میاں محمد بخش ؒ بھی حضور ؐ کے نامِ نامی کی حرمت اور تعظیم کو کیا خوب بیان کیا ہے کہ
جے لکھ واری عطر گلابوں دھویے نت زباں شان اوہناں دے لائق ناہیں کی کلمے دا کاناں
اس قدر بے پناہ عقیدت و محبت کیوں نہ ہوجب خود خدا نے فرمادیا کہ میری محبت چاہتے تو میرے حبیبؐ کی پیروی کرو۔ اور پھر آپؐ کی ذات وجہ تخلیق کائنات ہے حضرت مجدد الف ثانیؒ اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں کہ میں خدا کو اس لیے خدا مانا ہے کہ اس کی خبر مجھے رسول پاکؐ نے دی ہے۔اسی حقیقت کو
غالب نے بہت خوب صورت انداز میں پیش کیا بلکہ قرآن کی آیت وما امیت اذ امیت ولکن اﷲ رمی کی تفسیر یوں کی کہ
تیرقضا ہر آئینہ در ترکشِ حق است لیکن کشود آں از کمان محمدؐ است
خدا کے تیر بھی اُسی وقت ٹھیک نشانے پر جا کر لگتے ہیں جب وہ محمد مصطفے ٰ ﷺ کی کمان سے نکلتے ہیں۔یہ وہی سماں ہے کہ بدر میں تلواریں تو حضورؐ اور آپؐ کے صحابہ اکرامؓ چلا رہے تھے لیکن خدا نے کہا کہ قتل ہم کررہے تھے۔ اُس عظیم ہستی کے دِن کو پوری دنیا کے انسانوں کو منانا چاہیے اور اِسے صرف مسلمانوں تک محدود کرنا مناسب نہیں کیونکہ وہ بلا شبہ محسن انسانیت ہیں۔ انہوں نے اعلان کیاکہ رنگ و نسل اور زبان و ملک کی کوئی تخصیص نہیں اور تما م انسان محض آدم کی اولاد ہونے کے ناطے قابل عزت ہیں۔ انہوں نے انسان کو اس کے اصل مقام سے روشناس کراتے ہوئے اُسے شرف عظمت بخشا اور حقوق انسانی کا درس دیا۔ انہوں نے اعلان کردیا کہ رنگ و نسل اور ذات پات کے تمام بُت پاش پاش کردیے گئے ہیں ۔ کوئی انسان کسی دوسرے کوانسان پر اپنا حکم نہیں چلا سکتا۔ حاکمیت صرف خدا کی ہے جو اُس کی کتاب کے ذریعہ ہے اور یہی انہوں نے قیامت تک آنے والوں کے لیے رہنما ئی کے لیے چھوڑی جس کا واضع اعلان اپنے آخری خطبہ میں بھی کیا۔آپؐ کی بدولت انسانیت کو قرآن ملا جس کے ملنے پر سورہ یونس میں جشن مسرت منانے کا حکم ہے جس کی پیروی میں ربیع الاول میں صاحب قرآن کی آمد پر اور رمضان میں لیلۃ القدر کے موقع پر جشن نزول قرآن منایا جاتا ہے کیونکہ قرآن کو صاحب قرآن
سے الگ کیا ہی نہیں جاسکتا۔اس حقیقت کی وضاحت حضرت عائشہؓ نے آپؐ کو مجسم قرآن کہہ کر کیا۔ آپ ؐ نے مروجہ نظریات میں جکڑے ہوئے انسانوں کو سوچنے سمجھنے اور غوروفکر کا پیغام دیا جس کی بدولت انسان آج ترقی کی منازل طے کررہا ہے۔ آپ کے اُس نقلاب کا پوری دنیا نے اعتراف کیا ہے ۔حضورؐ نے جو انقلاب بھرپا کیا تھاہمیں اُس کی روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ محبت رسولؐ کا ثبوت اپنے کردار سے ہونا چاہیے ۔ اسوہ حسنہ اور قرآن حکیم کو مشعل راہ بنا کر زندگی کے ہر شعبہ میں اس سے رہنمائی لینا ہوگی۔عشق مصطفے ٰ ﷺ کا تقاضا ہے کہ ہمارے کردار سے اسوہ حسنہ کی خوشبو آنی چاہیے۔

مسجد نبوی ﷺ کی چھت کس چیز سے بنائی گئی تھی؟ پہلی بار جب آپ ﷺ منبر پر بیٹھےتو کھجور کا تنا کیوں رونے لگا؟ مسجد نبوی ﷺ کی چھت کس چیز سے بنائی گئی تھی؟ پہلی بار جب آپ ﷺ منبر پر بیٹھےتو کھجور کا تنا کیوں رونے لگا؟ Reviewed by Unknown on January 17, 2018 Rating: 5

No comments:

irf

Powered by Blogger.