ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کا حکم



نماز میں اسبالِ ازارسے متعلق احادیث

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّي مُسْبِلًا إِزَارَهُ إِذْ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ ، فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ، ثُمَّ جَاءَ ، ثُمَّ قَالَ : اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ ، فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ ، ثُمَّ جَاءَ ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا لَكَ أَمَرْتَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ ؟ فَقَالَ : إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَقْبَلُ صَلَاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ " .


  حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: جاوٴ، دوبارہ وضو کر کے آوٴ!تو وہ شخص وضو کر کے آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاوٴ،وضو کر کے آوٴ! وہ شخص گیا اور وضو کر کے آیا، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وضو کرنے کا حکم کیوں فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ اپنی ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہونے کی حالت میں نماز پڑھ رہا تھا اور اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں فرماتے ،جو اپنی ازار ٹخنوں کے نیچے لٹکائے ہوئے ہو۔(ابوداوٴد، کتاب الصلاة، باب الاسبال فی الصلاة، حدیث نمبر: ۶۳۸)
 تشریح: اس حدیث کی علماء نے چند تاویلیں کی ہیں، جو حسبِ ذیل ہیں:
            (۱) دوبارہ وضو کرنے کا حکم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے عطا کیا؛ تاکہ وہ دورانِ وضو غور کرسکے اور اپنے عملِ مکروہ پر متنبہ ہوکر، اس سے پرہیز کرے، نیز اکمل وافضل طریقے پر نماز ادا کرے۔
            (۲) اسبالِ ازار کے عمل کی وجہ سے، اس سے جو گناہ سر زد ہوا ہے، وضو کے ذریعہ وہ گناہ ختم ہوجائے۔
            (۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ وضو کرنے کا حکم زجراً وتوبیخاً فرمایاہے۔
            (۴) حدیث میں نماز کے قبول نہ ہونے سے مراد کامل قبولیت ہے، یعنی اسبالِ ازار کے ساتھ نماز پڑھنے والے کا فرض تو ادا ہوجائے گا؛ لیکن اسے اللہ تعالیٰ کی مکمل خوشنودی حاصل نہ ہوگی۔
            لہٰذا اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسبالِ ازار سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ (مرقاة المفاتیح، باب الستر، الفص

ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کا شرعی حکم


   اسلام ایک ایسا جامع دستورِ حیات ہے، جس میں حیاتِ انسانی کی مکمل رہبری ورہنمائی موجود ہے، خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے، انسان کی انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، اسلام نے جس طرح رہنے سہنے اور کھانے پینے کے اصول بتائے ہیں، اسی طرح کپڑے پہننے کے سلسلے میں بھی مکمل رہنمائی فرمائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح غیر اسلامی اور غیر قوموں کے مشابہ لباس سے منع فرمایا ہے، اسی طرح ایسا لباس، جس میں تکبر کا شائبہ ہو، اس سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے،ا سلامی لباس کا ایک محکم ضابطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا کہ مردوں کا لباس ٹخنوں سے نیچے نہیں ہونا چاہیے، ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید بیان فرمائی ہے،ذیل میں اس سلسلہ کی احادیث ذکر کی جاتی ہیں:

متکبرانہ لباس کی ممانعت اور سخت وعید

            عہد نبوی میں عرب متکبرین کا یہ فیشن تھا کہ کپڑوں کے استعمال میں بہت اسراف سے کام لیتے تھے اور اس کو بڑائی کی نشانی سمجھتے تھے، ”ازار“ یعنی تہبند اس طرح باندھتے تھے کہ چلنے میں نیچے کا کنارہ زمین پر گھسٹتا تھا، اسی طرح قمیص اور عمامہ اور دوسرے کپڑوں میں بھی اسی قسم کے اسراف کے ذریعہ اپنی بڑائی اور چودھراہٹ کی نمائش کرتے، گویا اپنے دل کے استکبار اور احساس بالاتری کے اظہار اور تفاخر کا یہ ایک ذریعہ تھا، اور اس وجہ سے متکبرین کا یہ خاص فیشن بن گیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سخت ممانعت فرمائی اور نہایت سنگین وعیدیں اس کے بارے میں سنائیں:
          عن ابن عمرَ، أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: مَنْ جرَّ ثوبَہ خُیَلَاءَ لَمْ ینظُرِ اللّٰہُ إلیہِ یومَ القیامةِ․
            حضرت عبد اللہ بن عمر  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اپنا کپڑا کبر وغروراو رفخر کے طورپر (زمین پر) گھسیٹے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طر ف نظرِ کرم نہ فرمائے گا۔(بخاری، کتاب المناقب، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم:لوکنت متخذا خلیلا․․․․حدیث نمبر: ۳۶۶۵)
            عَنْ أبي سَعِیْدِن الْخُدْرِيِّ قَالَ: سمعتُ رسولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یقولُ: ازارةُ المُوٴْمِنِ الٰی أنْصَافِ سَاقَیْہِ، لاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ فِیْمَا بَیْنَہ وَبَیْنَ الْکَعْبَیْنِ، وَمَا أسْفَلَ مِنْ ذٰلِکَ فَفِي النَّارِ، قَالَ ذٰلِکَ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ وَلاَ یَنْظُرُ اللّٰہُ یومَ القیامةِ الیٰ مَنْ جَرِّ ازارَہ بَطَرًا (ابوداوٴد، اللباس، باب فی قدر الموضع من الازار، حدیث نمبر:۴۰۹۵)
            حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، فرماتے تھے کہ مومن بندے کے لیے ازار یعنی تہبند باندھنے کا طریقہ(یعنی بہتر اور اولیٰ صورت) یہ ہے کہ پنڈلی کے درمیانی حصہ تک ہو اور نصف ساق اور ٹخنوں کے درمیان تک ہو تو یہ بھی گناہ نہیں ہے، (یعنی جائز ہے)اور جو اس سے نیچے ہو تو وہ جہنم میں ہے(یعنی اس کا نتیجہ جہنم ہے)(راوی کہتے ہیں) کہ یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی(اس کے بعد فرمایا) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس آدمی کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا، جو ازراہِ فخروتکبر اپنی ازار گھسیٹ کے چلے گا۔
            تشریح:ان حدیثوں میں فخر اور غرور والا لباس استعمال کرنے والوں کو یہ سخت وعید سنائی گئی ہے کہ وہ قیامت کے اس دن میں جب کہ ہر بندہ اپنے ربِ کریم کی نگاہِ رحم وکرم کا سخت محتاج ہوگا، وہ اس کی نگاہِ رحمت سے محروم رہیں گے، اللہ تعالیٰ اس دن ان کو بالکل ہی نظر انداز کردے گا، ان کی طرف نظرکرم بھی نہ فرمائے گا، ہائے ایسے لوگوں کی محرومی و بدبختی! اللہم احفظنا !
            حضرت ابو سعید خدری  کی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن کے لیے اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ تہبند اور اسی طرح پاجامہ نصف پنڈلی تک ہو اور ٹخنوں کے اوپر تک ہو،تو یہ بھی جائز ہے؛ لیکن اس سے نیچے جائز نہیں؛ بلکہ سخت گناہ ہے اور اس پر جہنم کی وعید ہے۔

ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کا حکم ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کا حکم Reviewed by Unknown on January 19, 2018 Rating: 5

No comments:

irf

Powered by Blogger.