كُلُّ نَفسٍ ذائِقَةُ المَوتِ ۗ وَإِنَّما تُوَفَّونَ أُجورَكُم يَومَ القِيٰمَةِ ۖ فَمَن زُحزِحَ عَنِ النّارِ وَأُدخِلَ الجَنَّةَ فَقَد فازَ ۗ وَمَا الحَيوٰةُ الدُّنيا إِلّا مَتٰعُ الغُرورِ {3:185}
ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے اور تم کو قیامت کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا۔ تو جو شخص آتش جہنم سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے
یعنی موت کا مزہ سب کو چکھنا ہے، اس کے بعد قیامت کے دن ہر جھوٹے سچے اور مصدق و مکذب کو اپنے کئے کا پورا بدلہ مل رہے گا "پورے" کا یہ مطلب کہ کچھ تھوڑا سا ممکن ہے قیامت سے پہلے ہی مل جائے۔ مثلًا دنیا میں یا قبر میں۔
یعنی دنیا کی عارضی بہار اور ظاہری ٹیپ ٹاپ بہت دھوکہ میں ڈالنے والی چیز ہے جس پر مفتون ہو کر اکثر بےوقوف آخرت سے غافل ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ انسان کی اصلی کامیابی یہ ہے کہ یہاں رہ کر انجام کو سوچے اور وہ کام کرے جو عذاب الہٰی سے بچانے والا اور جنت تک پہنچانے والا ہو۔ (تنبیہ) آیت میں ان بعض متصوفین کا بھی رد ہو گیا جو دعوےٰ کیا کرتے ہیں کہ ہمیں نہ جنت کی طلب، نہ دوزخ کا ڈر، معلوم ہوا کہ دوزخ سے دور رہنا اور جنت میں داخل ہو جانا ہی اصل کامیابی ہے۔ کوئی اعلیٰ ترین کامیابی جنت سے باہر رہ کر نصیب نہیں ہو سکتی۔ و فی الحدیث { وَحَوْ لَھَا نُدنِدنُ } اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے ہم کو بھی یہ کامیابی عنایت فرمائے۔



كُلُّ نَفسٍ ذائِقَةُ المَوتِ ۗ وَنَبلوكُم بِالشَّرِّ وَالخَيرِ فِتنَةً ۖ وَإِلَينا تُرجَعونَ {21:35}
ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ اور ہم تو لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں۔ اور تم ہماری طرف ہی لوٹ کر آؤ گے
جہاں تمہارے صبر و شکر اور ہر نیک و بد عمل کا پھل دیا جائے گا۔
یعنی دنیا میں سختی نرمی ، تندرستی بیماری تنگی فراخی اور مصیبت و عیش وغیرہ مختلف احوال بھیج کر تم کو جانچا جاتا ہے تاکہ کھرا کھوٹا الگ ہو جائے اور علانیہ ظاہر ہو جائے کہ کون سختی پر صبر اور نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہے اور کتنے لوگ ہیں جو مایوسی یا شکوہ شکایت اور ناشکری کے مرض میں مبتلا ہیں۔
یعنی جس طرح مذکورہ مخلوقات کا وجود حق تعالیٰ کی ایجاد سے ہوا ۔ تمام انسانوں کی زندگی بھی اسی کی عطا کردہ ہے جس وقت چاہے گا چھین لے گا موت ہر ایک پر ثابت کر دے گی کہ تمہاری ہستی تمہارے قبضہ میں نہیں ۔ چند روز کی چہل پہل تھی جو ختم ہوئی۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ کافر حضور کی باتیں سن کر کہتے تھے کہ یہ ساری دھوم محض اس شخص کے دم تک ہے یہ دنیا سے رخصت ہوئے پھر کچھ نہیں ۔ اس سے اگر ان کی غرض یہ تھی کہ موت آنا نبوت کے منافی ہے تو اس کا جواب دیا ۔ { وَمَا جَعَلْنَا لِبَشْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ } یعنی انبیاء مرسلین میں سے کون ایسا ہے جس پر کبھی موت طاری نہ ہو ہمیشہ زندہ رہے ۔ اور اگر محض آپ کی موت کے تصور سے اپنا دل ٹھندا کرنا ہی مقصود تھا تو اس کا جواب { أفَاِنْ مِّتَّ فَھُمْ الْخَالِدُوْنَ } میں دے دیا۔ یعنی خوشی کاہے کی ؟ کیا آپ کا انتقال ہو جائے تو تم کبھی نہیں مرو گے ، قیامت کے بوریے سمیٹو گے ؟ جب تم کو بھی آگے پیچھے مرنا ہے تو پیغمبر کی وفات پر خوش ہونے کا کیا موقع ہے ۔ اس راستہ سے تو سب کو گذرنا ہے کون ہے جس کو کبھی موت کا مزا چکھنا نہیں پڑے گا۔ گویا توحید اور دلائل قدرت بیان کرنے کے بعد اس آیت میں مسئلہ نبوت کی طرف روئے سخن پھیر دیا گیا۔


كُلُّ نَفسٍ ذائِقَةُ المَوتِ ۖ ثُمَّ إِلَينا تُرجَعونَ {29:57}
ہر متنفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ پھر تم ہماری ہی طرف لوٹ کر آؤ گے
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "جب کافروں نے مکہ میں بہت زور باندھا تو مسلمانوں کو ہجرت کا حکم ہوا۔ چنانچہ اسّی تراسی گھر حبشہ چلے گئے۔ اس کو فرمایا کہ کوئی دن کی زندگی ہے جہاں بن پڑے وہاں کاٹ دو، پھر ہمارے پاس اکھٹے آؤ گے۔ اس میں مہاجرین کی تسلی کر دی تا وطن چھوڑنا اور حضرت سے جدا ہونا دل پر بھاری نہ گذرے گویا جتلا دیا کہ وطن، خویش و اقارب، رفقاء اور چھوٹے بڑے آج نہیں کل چھوٹیں گے۔ فرض کرو۔ اسوقت مکہ سے ہجرت نہ کی تو ایک روز دنیا سے ہجرت کرنا ضرور ہے مگر وہ بے اختیار ہوگا۔ بندگی اس کا نام ہے کہ اپنی خوشی اور اختیار سے ان چیزوں کو چھوڑ دے جو پروردگار حقیقی کی بندگی میں مزاحم اور خلل انداز ہوتی ہیں۔
Reviewed by Unknown on February 06, 2018 Rating: 5

1 comment:

  1. تنبیہ) آیت میں ان بعض متصوفین کا بھی رد ہو گیا جو دعوےٰ کیا کرتے ہیں کہ ہمیں نہ جنت کی طلب، نہ دوزخ کا ڈر، iska matlab hai. auliya karam jo bhi kaam karte hain woh khuda aur uske rasool peace be upon him ke liye. kisi lalach may nahe.

    ReplyDelete

irf

Powered by Blogger.