موت کے وقت مطلوب کیفیت



اللَّهُ يَتَوَفَّى الأَنفُسَ حينَ مَوتِها وَالَّتى لَم تَمُت فى مَنامِها ۖ فَيُمسِكُ الَّتى قَضىٰ عَلَيهَا المَوتَ وَيُرسِلُ الأُخرىٰ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يَتَفَكَّرونَ {39:42}
خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں (ان کی روحیں) سوتے میں (قبض کرلیتا ہے) پھر جن پر موت کا حکم کرچکتا ہے ان کو روک رکھتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ جو لوگ فکر کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں یعنی نیند میں ہر روز جان کھینچتا ہے پھر (واپس) بھیجتا ہے۔ یہ ہی نشان ہے آخرت کا۔ معلوم ہوا نیند میں بھی جان کھینچتی ہے۔ جیسے موت میں۔ اگر نیند میں کھینچ کر رہ گئ وہ ہی موت ہے مگر یہ جان وہ ہے جس کو (ظاہر) ہوش کہتے ہیں۔ اور ایک جان جس سے سانس چلتی ہے اور نبضیں اچھلتی ہیں اور کھانا ہضم ہوتا ہے سو دوسری ہے وہ موت سے پہلے نہیں کھینچتی (موضح القرآن) حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بغوی نے نقل کیا ہے کہ نیند میں روح نکل جاتی ہے مگر اس کا مخصوص تعلق بدن سے بذریعہ شعاع کے رہتا ہے جس سے حیات باطل ہونے نہیں پاتی(جیسے آفتاب لاکھوں میل سے بذریعہ شعاعوں کے زمین کو گرم رکھتا ہے)۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیند میں بھی وہ ہی چیز نکلتی ہے جو موت کے وقت نکلتی ہے لیکن تعلق کا انقطاع ویسا نہیں ہوتا جو موت میں ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔


الَّذى خَلَقَ المَوتَ وَالحَيوٰةَ لِيَبلُوَكُم أَيُّكُم أَحسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ العَزيزُ الغَفورُ {67:2}
اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے
یعنی زبردست ہے جس کی پکڑ سے کوئی نہیں نکل سکتا اور بخشنے والا بھی بہت بڑا ہے۔
یعنی مرنے جینے کا سلسلہ اسی نے قائم کیا، ہم پہلے کچھ نہ تھے (اسے موت ہی سمجھو) پھر پیدا کیا، اس کے بعد موت بھیجی، پھر مرے پیچھے زندہ کر دیا۔ کما قال{ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ ِالَیْہِ تُرْجَعُوْنَ } (البقرہ رکوع۳)موت و حیات کا یہ سارا سلسلہ اس لئے ہے کہ تمہارے اعمال کی جانچ کرے کہ کون برے کام کرتا ہے کون اچھے، اور کون اچھے سے اچھے پہلے زندگی میں یہ امتحان ہوا اور دوسری زندگی میں اس کا مکمل نتیجہ دکھلا دیا گیا۔ فرض کرو اگر پہلی زندگی نہ ہوتی تو عمل کون کرتا ، اور موت نہ آتی تو لوگ مبداء ومنتہیٰ سے غافل اور بےفکر ہو کر عمل چھوڑ بیٹھتے اور دوبارہ زندہ نہ کئے جاتے تو بھلے برے کا بدلہ کہاں ملتا۔


وَاتَّخَذوا مِن دونِهِ ءالِهَةً لا يَخلُقونَ شَيـًٔا وَهُم يُخلَقونَ وَلا يَملِكونَ لِأَنفُسِهِم ضَرًّا وَلا نَفعًا وَلا يَملِكونَ مَوتًا وَلا حَيوٰةً وَلا نُشورًا {25:3}
اور (لوگوں نے) اس کے سوا اور معبود بنا لئے ہیں جو کوئی چیز بھی پیدا نہیں کرسکتے اور خود پیدا کئے گئے ہیں۔ اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اُٹھ کھڑے ہونا
یعنی کس قدر ظلم اور تعجب و حیرت کا مقام ہے کہ ایسے قادر مطلق، مالک الکل، حکیم علی الاطلاق کی زبردست ہستی کو کافی نہ سمجھ کر دوسرے معبود اور حاکم تجویز کر لئے گئے، جو گویا خدا کی حکومت میں حصہ دار ہیں۔ حالانکہ ان بیچاروں کا خود اپنا وجود بھی اپنے گھر کا نہیں نہ وہ ایک ذرہ کے پیدا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، نہ مارنا جِلانا ان کے قبضے میں ہے، نہ اپنے مستقل اختیار سے کسی کو ادنیٰ ترین نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بلکہ خود اپنی ذات کے لئے بھی ذرہ برابر فائدہ حاصل کرنے یا نقصان سے محفوظ رہنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ایسی عاجز و مجبور ہستیوں کو خدا کا شریک ٹھہرانا کس قدر سفاہت اور بے حیائی ہے۔ (ربط) یہ قرآن نازل کرنے والے کی صفات و شئون کا ذکر تھا اور اس کے متعلق مشرکین جو بے تمیزی کر رہے تھے اسکی تردید تھی۔ آگے خود قرآن اور حامل قرآن کی نسبت سفیہانہ نکتہ چینیوں کا جواب ہے۔

موت کے وقت مطلوب کیفیت موت کے وقت مطلوب کیفیت Reviewed by Unknown on February 04, 2018 Rating: 5

No comments:

irf

Powered by Blogger.